واقعہ۔ کربلا اور ریاستی لشکر کا کردار
نے یزید کے مظالم پر حکمران سے بغاوت کیوں نہی کی۔ سواۓ حر کے کیا کوئ مومن نہ تھا جو نبی ﷺ کے پیارے نواسے پر برساۓ ہوۓ تیروں کو روکتا۔ جہاں ہمیں کربلا کے واقعہ سے ظالم کے سامنے ڈٹ جانے اور باطل سے لڑنے کا سبق ملتا ہے وہاں ایک بہت اہم سبق ہے جس کی کوئ نشاندہی نہی کرتا۔ وہ سبق ہے کہ اگر حاکم ظالم اور سفاق ہو اور ریاستی لشکر کو گناہ کرنے کا حکم دے تو اس لشکر پر فرض ہے ایسے حاکم کے غلط حکم کی حکم ادولی کرنے کا اور حق کی راہ میں ایسے جابر حاکم کے خلاف جہاد کرنے کا۔ اگر آج کل کے زمانے میں واقعہ۔ کربلا کی اس بات کو سامنے رکھا جاۓ تو اگر اسلامی ریاست کا سپہ سالار ریاست کے مظلوموں کو ایک سفاق بادشاہ کی بربریت سے بچانے کی کوشش کرے تو یہ وہی حسینیت ہے جس پر حر نے لبیک کہا تھا۔ جنرل حمید گل نے یہی بات کہی تھی کہ پاکستان کے عوام نے جب جب اپنے حکمرانوں کے ستم سے تنگ آ کر آہ و بکا کی ہے؛ تب تب پاکستان کی آرمی نے حر کی طرح ظالم حاکم سے بغاوت کر کے حسینیت پر لبیک کہا ہے۔ اگر پاکستانی عوام اپنے جمہوری حکمرانوں سے خوش ہوتے تو آرمی کو کیا ضرورت تھی مداخلت کرنے کی۔ لیکن ہم تین دہایئوں سے پاکستان کے مزدور اور کسان کو پستے ہوۓ دیکھ رہے ہیں۔ جب جب آرمی حسینیت پر لبیک کہ کر ایسے خطرناک حاکموں کو تخت سے اتارتی ہے تو اس با حیا لشکر کو ایسے سیاستدانوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے صحافی زندہ در گور کرنے میں کوئ کسر نہی چھوڑتے۔ حالاں کہ تاریخ کی روشنی میں کربلا کا اہم سبق ہے کہ ہر لشکر پر فرض ہے یزیدیت کے خلاف جنگ کر کے حسینیت کا ساتھ دینے کا۔ اگر پاکستان کا لشکر یزید کو اتارتا ہے دربار سے تو وہ اسلامی قوانین کے مطابق بلکل درست ہے۔ کیوں کہ ظالم کا ساتھ دینے والا آج بھی یزیدی لشکر کہلاتا ہے اور حسینیت پر لبیک کہنے والا جنت میں ان بہتر شہیدوں کا ساتھی کہلاتا ہے۔
تم مارشل لاء کو کوستے رہے جنریلوں کو بولتے رہے
نہ زرداری نہ نواز تمہارا ہو سکا
جب کسان گردا بیچنے لگا ان ظالموں کے نیچے
تو پاکستان کے سپہ سالاروں نے ثبوت دیا
کہ وہ یزیدیت نہی حسینیت کے ساتھ ہیں
ڈاکٹر فیب